اسرائیل نے مغربی کنارے میں انتہائی متنازع اور غیر قانونی بستی کے قیام کے منصوبے کی حتمی منظوری دے دی جسے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو ختم کرنے کی جانب ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔
انتہا پسند اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسموتریچ نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ ای ون (E1) بستی کے قیام کا منصوبہ انہوں نے گزشتہ ہفتے پیش کیا تھا اور بدھ کو وزارت دفاع کی منصوبہ بندی کمیٹی نے اس کی باضابطہ منظوری دے دی۔
خیال رہے کہ ای ون منصوبہ مقبوضہ مغربی کنارے کو درمیان سے کاٹ دے گا اور مشرقی القدس (یروشلم) سے اس کا زمینی رابطہ ختم ہوجائے گا۔
اسموتریچ نے کہا کہ ای ون کے ساتھ ہم وہ وعدہ پورا کر رہے ہیں جو برسوں پہلے کیا گیا تھا، فلسطینی ریاست کے امکان کو نعرے بازی سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ختم کیا جائے گا۔
فلسطینی وزارتِ خارجہ نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر قانونی بستی مقامی فلسطینی آبادی کو الگ تھلگ کردے گا اور دو ریاستی حل کے امکانات کو ختم کردے گی۔
جرمن حکومت کے ترجمان نے بھی اس اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور ’یہ دو ریاستی حل اور مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں‘۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس منصوبے پر براہِ راست تبصرہ نہیں کیا، تاہم اتوار کو مغربی کنارے کی ایک اور بستی ’عوفرا‘ کے دورے کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے 25 سال پہلے کہا تھا کہ ہم ہر ممکن اقدام کریں گے کہ سرزمینِ اسرائیل پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکیں، فلسطینی ریاست کے قیام کو روک سکیں اور ہمیں یہاں سے بے دخل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا سکیں۔ میں نے جو وعدہ کیا تھا ہم نے وہ پورا کیا‘۔
ای ون منصوبہ ماضی میں 2012 اور 2020 میں امریکی اور یورپی دباؤ کے باعث روک دیا گیا تھا، اس منصوبے کے تحت تقریباً 3 ہزار 400 نئے رہائشی یونٹس تعمیر کیے جائیں گے۔ اسرائیلی تنظیم ’پیس ناؤ‘ کے مطابق بنیادی انفراسٹرکچر کے کام آئندہ چند ماہ میں شروع ہوسکتے ہیں جبکہ رہائشی تعمیرات ایک سال کے اندر شروع ہونے کا امکان ہے۔