ہفتہ, دسمبر 6, 2025
ہومبین الاقوامیتل ابیب کی ریاستی دہشت گردی؛ پیجر نہیں، بم !

تل ابیب کی ریاستی دہشت گردی؛ پیجر نہیں، بم !

17 اور 18 ستمبر سن 2024؛ ہزاروں پیجر مشینیں لبنان کے مختلف علاقوں میں بیک وقت پھٹ پڑیں اور ثابت ہوگیا کہ صیہونی حکومت کس طرح سے ایک روزمرہ کے زیر استعمال مشین کو تباہ کن ہتھیار کے طور پر استعمال اور اس ذریعے استقامتی محاذ کے دلوں میں خوف پھیلانے کی کوشش کرسکتی ہے۔

یہ پیجر اور واکی ٹاکی مشینیں حزب اللہ کے اہلکاروں کے پاس تھیں اور لبنان حتی کہ شام کے مختلف علاقوں میں پھٹ پڑیں۔

دسیوں شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے( رپورٹ کے مطابق 37 افراد شہید اور 3400 زخمی)۔ بہت سے زخمیوں کا تعلق حزب اللہ سے تھا لیکن عام شہری بھی شہیدوں اور زخمیوں میں دیکھے گئے جس سے عام شہریوں کے حقوق کی پامالی کی جانب سے تشویش میں اضافہ ہوگیا۔

تل ابیب کی ریاستی دہشت گردی؛ پیجر نہیں، بم!

بتایا گیا ہے کہ اس دہشت گردانہ کارروائی کی پلاننگ صیہونی جاسوسی اداروں نے مدتوں پہلے کی تھی اور اس کا مقصد حزب اللہ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ استقامتی تنظیم کے ارکان میں بدامنی اور بے اعتمادی کا احساس دلانا تھا۔

اس دہشت گردانہ حملے کا انسانی پہلو انتہائی سنگین تھا۔ زیادہ تر زخمی افراد کو آنکھوں کی روشنی چلے جانے، بری طرح جلنے اور دیگر ناقابل تلافی جسمانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور چند گھنٹے کے اندر لبنان کے طبی نظام اور ہسپتالوں پر ایسا دباؤ پڑا کہ پورے لبنان میں طبی وسائل اور ادویات کی کمی ہوگئی۔

عوام میں خوف و ہراس پھیل گيا اور مواصلاتی وسائل سے عوام کا بھروسہ ہٹ گیا۔

سیکورٹی امور کے ماہرین نے اس دہشت گردانہ حملے کو گزشتہ چںد برس کی پیچیدہ ترین جاسوسی کارروائی قرار دیا ہے۔

قانونی اور اخلاقی لحاظ سے بھی اس حملے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کے زاویے سے فوجی اور شہری اہداف میں فرق رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور حملہ آور طاقت کو حتی شدیدترین جنگ کے دوران ان معاملات کا خیال رکھنا ہوتا ہے لیکن صیہونی حکومت نے ایسے وسائل کو بم میں بدل کر رکھ دیا جسے ہر عام شہری بھی استعمال کرتا ہے اور اسی رو سے تل ابیب کا یہ اقدام نفسیاتی اور ریاستی دہشت گردی ہے۔

اس دہشت گردانہ واقعے کے بعد ثابت ہوگیا کہ مستقبل کی جنگیں روائتی انداز کی نہیں ہوں گی بلکہ سامراجی طاقتیں جنہیں اخلاقی اصولوں اور قواعد سے کوئی سروکار نہیں ہر معمولی چیز کو بھی اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرسکتی ہیں۔

سیکورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مواصلاتی مشینوں کو حاصل کرنے کے طریقے پر بھی اب کئی گنا زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تمام ممالک بالخصوص اصول پسند ترقی پزیر ممالک کو چاہیے کہ ایسے وسائل کی خریداری کے لیے باریک بینی سے کام لیں اور اپنے اداروں اور انتظامی اور سیکورٹی اہل کاروں کو مذکورہ خفیہ خطروں سے بھی مکمل طور پر آگاہ رکھیں جس طرح سے حزب اللہ نے اس واقعے کے بعد اپنے سسٹم میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔

یقینا پیجروں کے دھماکے کے واقعے کے بعد قصہ ختم نہیں ہوا بلکہ انٹیلی جنس اور خفیہ کارروائیوں کی دنیا میں ایک نئی داستان کا آغاز ہوگیا جس نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ علاقے کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کی جنگ اب انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے علاوہ فریق مقابل کی نفسیات اور ذہنی کیفیت کو قابو میں کرنے کے میدان میں داخل ہوگئی ہے۔

متعلقہ مضامین
- Advertisment -
Google search engine

تازہ ترین