ترجمان وزارت خارجہ نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں صحافیوں کو ایران کے ایٹمی پروگرام، اسنیپ بیک، غزہ اور کئی دیگر معاملات کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف سے آگاہ کیا۔
ترجمان وزارت خارجہ اسماعیل بقائی نے آئی اے ای اے کے سربراہ کے اس دعوے، کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی رپورٹ کا ایران پر حملے میں کوئی کردار نہیں تھا کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئی اے ای اے اور بورڈ آف گورنرز نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی، اس نے صیہونی حکومت اور امریکہ کو حملے کا موقع اور بہانہ فراہم کیا جس کی یورپ نے بھی حمایت کی۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ ہم اس حملے کا اصل ذمہ دار امریکہ اور صیہونی حکومت کو سمجھتے ہیں لیکن یہ جارحیت آئی اے ای اے کی رپورٹ کے بہانے انجام دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ رافائل گروسی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا کوئی فوجی پہلو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود، آئی اے ای اے کے سربراہ نے صیہونی اور امریکی حملوں کی مذمت سے گریز کیا۔
ترجمان وزارت خارجہ نے یورپی ٹرائیکا سے مذاکرات اور امریکی صدر کے تازہ دعووں کے بارے میں کہا کہ فی الحال مذاکرات کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت یورپ اور امریکہ کے اقدامات کے نتائج اور ایران کی جوابی کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے سفارتکاری کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور اگر ملک کے مفاد میں ہوا تو اس سلسلے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
اسماعیل بقائی نے امریکی صدر کے تازہ بیان کے بارے میں کہا کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر غیرقانونی حملے اور اس مجرمانہ اقدام کو افتخار کے طور پر پیش کرنے سے صرف امریکہ کی قانونی ذمہ داری میں اضافہ ہوگا جس سے واشنگٹن کی ساکھ اور بھی خراب ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات مزید ثابت ہوگئی کہ امریکہ ایک قانون شکن اور غیرذمہ دار ملک ہے جسے عالمی قوانین اور اصولوں کا کوئی خیال نہیں ہے۔
ترجمان وزارت خارجہ نے سلامتی کونسل میں ایران کے حق میں روس اور چین کے موقف کا خیرمقدم کیا اور بتایا کہ ایران اور روس کے جامع اسٹریٹیجک معاہدے پر 2 اکتوبر سے عملدرامد کا آغاز ہوگیا ہے جس سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایران کو الگ تھلگ کرنے کی بعض ملکوں کی کوشش ناکام ہوچکی ہے۔
انہوں نے زور دیکر کہا کہ ایران کو الگ تھلگ کرنا ناممکن ہے۔


