مسلط کردہ غزہ امن منصوبہ ابہام کیساتھ سامراجی عزائم کی تکمیل کی نئی چال، قائد ملت جعفریہ پاکستان
پاکستان کے بنیادی نکات ہی شامل نہیں کئے گئے، چین اور روس کو بھی تحفظات ،علامہ سید ساجد علی نقوی
اسلام آباد 19 نومبر2025ئ : قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ مسلط کردہ غزہ امن منصوبہ ابہام کیساتھ سامراجی عزائم کی تکمیل کی نئی چال ہے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح طریق کار،بین الاقوامی استحکام فورس اور بورڈ آف پیس کی مکمل وضاحت جیسے بنیادی نکات کو امن منصوبے کا حصہ نہیں بنایاگیا جبکہ چین اورروس نے معاملے پر تحفظات کیساتھ حمایت ہی نہیں کی ،قابض صہیونی ریاست کی ڈھٹائی سے انکار نے واضح کردیا کہ سامراج و استعمار کے خونی کھیل کی نہ صرف توثیق ہورہی بلکہ اس مسلط کردہ امن معاہدے کا مستقبل غیر یقینی اور مخدوش ہے جس میں نہ فلسطینی سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی اور نہ ہی اہم ترین بین الاقوامی ممالک کی رضا مندی شامل ہے،
ان خیالات کا اظہار قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے مسلط کردہ امن منصوبے کی سلامتی کونسل سے منظوری اور پاکستان کی تجاویز کو شامل نہ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ یہ مسلط کردہ پلان دراصل سامراجی صہیونی عزائم کی تکمیل کی نئی چال ہے جسکی ڈھٹائی صہیونی ریاست نہ صرف مخالفت کررہی ہے بلکہ استعمار و سامراج کے خونی کھیل کی توثیق بھی کررہی ہے کیونکہ یہ مسئلہ خود استعمار و سامراج کا پیدا کردہ ہے اورہرقدم کا بنیادی مقصد ہی قابض صہیونیت کو مزید تقویت پہنچانا ہے ۔
انہوں نے مزید کہاکہ 18 ویں صدی سے شروع ہونیوالا سلسلہ 1917ء کو اعلان بالفور کے ذریعے سامنے آیا اور 14 مئی 1948ء کو ایک ظالم، قابض صہیونی ریاست کی صورت میں عملی طور پر سامنے آیا پھر2021ء کے آغاز میں نام نہاد ابراہم ایکارڈ کا تذکرہ شروع ہوا جو ایک یکطرفہ جنگ کے بعد اب نام نہاد پیس اگریمنٹ کے طور پر سامنے آیا جس کو اب سلامتی کونسل کی چھتری د ے کر توثیق لی گئی ہے جو ان مکروہ عزائم کی تکمیل کی ایک نئی چال ہے اب اقوام متحدہ سمیت ان شریف ممالک پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ جب بنیادی نکات ہی تسلیم نہیں کئے گئے تو پھر کس طرح ایک ظالم و جابر حکومت سے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ امن عمل کے سلسلے میں آگے بڑھے گا لہٰذا اس معاملے پر فقط ابہام نہیں بلکہ یہ مکروہ عزائم کی تکمیل کی جانب ایک سنگین قدم ہے ۔


