ایک محقق، تحقیقی کتب و مصادر کے ساتھ چلتا ہے۔ حقیقت اس سے مخاطب ہوتی ہے۔ یعنی وہ حقائق پر نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔تحقیق و دلیل اسے جس طرف لے جائیں اس طرف جاتا ہے۔ اسے عوام کی پسند و ناپسند سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔
محقق کے برعکس خطیب و ذاکر خود کسی کے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ ان کے مخاطب عوام ہوتے ہیں۔ یعنی وہ حقائق کی بجائے عوام پر نظر رکھے ہوتے ہیں۔ اس لیے خالصتا عوام کی پسند پر چلتے ہیں۔ عوام جس طرف لے جائیں اس طرف جاتے ہیں۔ واہ واہ ان کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ انہیں موضوع کے حقیقی ہونے سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔
جبکہ حقیقی مصلح و معلم کی ذمہ داری دوطرفہ ہے۔ وہ خود تحقیق کرتا ہے یا محقق سے حقائق لیتا ہے اور عوام کی عقل کے مطابق ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ لہذا ایک طرف وہ عوامی مزاج اور پسند کا ایک مناسب حد تک خیال رکھتا ہے۔اور دوسری طرف حق و حقیقت کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس لیے اس سے کبھی عوامی مصلحت سے ناآشنا محقق ناراض ہوجاتا ہے اور کبھی علمی دیانت داری سے گریزاں خطیب و ذاکر خفا ہوجاتے ہیں۔
ہر مسلک،مذہب و نظریے میں یہ تقسیم موجود ہے۔
ہم اگر ان تین اقسام کو مدنظر رکھیں تو حقیقی علمی باتوں اور جعلی عوامی باتوں کی پہچان آسان رہے گی۔
بقول روحی کنجاہی :
ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے
دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے
بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے
بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے
دشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے
خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے
شفاف بھی رکھنا ہے گلشن کی فضاؤں کو
ہر برگ گل تر کو تلوار بھی کرنا ہے
کانٹوں سے الجھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے
پھولوں سے محبت کا اظہار بھی کرنا ہے
ہونے بھی نہیں دینا بحران کوئی پیدا
موقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے
سید عون ساجد نقوی


