تہران : اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ یہ صاف جھوٹ ہے کہ ایران مذاکرات کرنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر عقلمندی اور انصاف پر مبنی کوئی تجویز پیش کی جائے جس میں ایران کے مفادات کا بھی تحفظ ہو، تو ایسے مذاکرات کو قبول کریں گے۔
ایران کے چیمبر آف کامرس کے ارکان سے ملاقات کے دوران ڈاکٹر علی لاریجانی نے تاجروں اور صنعتکاروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے 12 روزہ جنگ کے دوران پیداوار اور تجارت کا سلسلہ بحال رکھتے ہوئے، ملک کو مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے اس موقع پر اسنیپ بیک مکینزم اور یورپ کی منافقت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ایران نے ایٹمی معاملے پر مذاکرات کا اور ہر ممکنہ پرامن طریقہ اپنایا لیکن فریق مقابل نے رکاوٹیں ڈال کر اور لالچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کوشش کے سامنے دیوار کھڑی کردی۔
انہوں نے کہا کہ:” مثال کے طور پر فرانس نے آئی اے ای اے کے سربراہ کے ذریعے پیغام دلوایا کہ اگر تہران ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ مفاہمت کرلے تو یورپ اسنیپ بیک کو واپس لے لے گا۔ یہ معاہدہ مصر میں ہوا اور وزیر خارجہ نے اس پر دستخط بھی کیا، اس کے باوجود یورپ نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے یورپ اور روس کی جانب سے پیش کیے گئے الگ الگ منصوبوں کی جانب اشارہ کیا جسے ایران نے کچھ شرطوں کے ساتھ قبول کیا لیکن پھر بھی یورپی ٹرائيکا نے سلامتی کونسل میں اسنیپ بیک کے معاملے کو پیش کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ یورپ کے منصوبے کے تحت مزید 6 مہینے کے مذاکرات ہونے والے تھے۔
علی لاریجانی نے بتایا کہ امریکہ نے ایسی شرط پیش کیں جسے کوئی بھی غیرتمند انسان قبول نہیں کرسکتا۔
انہوں نے بتایا کہ واشنگٹن نے شرط رکھی کہ ایران اپنے میزائلوں کا رینج 500 کلومیٹر سے کم کردے!
ڈاکٹر علی لاریجانی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا کوئی بھی ایرانی شہری ایسی کوئی چیز قبول کرسکتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ امریکہ ایسے مطالبات پیش کرتا ہے جو سرے سے ناقابل قبول ہوتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ امریکہ تھا جس نے پہلے مرحلے میں معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس سے نکل گیا اور اس کے بعد یورپ نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا اور پھر ایران پر بمباری بھی کی۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے یہ سوال اٹھایا کہ [آّپ خود اندازہ لگائیے کہ] کسے اعتراض کا حق حاصل ہے؟ [یورپ کو یا ایران کو]
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کی معاہدوں کی شقوں کا غلط استعمال کرنے میں ایک پرانی تاریخ ہے اور مغربی حکومتیں اپنی بدعہدیوں کے باوجود مذاکرات کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں حالانکہ ان کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ اگر کوئی معقول اور منصفانہ تجویز ہو اور ایران کے مفادات کی ضمانت فراہم کی جائے تو ایران اسے قبول کرے گا لیکن اگر ہمارے قومی مفادات یا سلامتی پر آنچ آئی تو ہم اس کے سامنے ڈٹ جائیں گے جس طرح سے میزائل کے معاملے میں ڈٹ گئے۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے زور دیکر کہا کہ ہم جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ صیہونیوں کی مہم جوئی اور تباہ کارانہ پالیسیوں کے مدمقابل ہے۔


