شہروں کے عالمی دن پر ہنسابستا غزہ کیوں نظر انداز ؟ بین الاقوامی ضمیر کب جاگے گا، علامہ سید ساجد علی نقوی
نیویارک تالندن تا اسلام آباد جشن منایاگیا مگر غزہ میں آ ج بھی بارود کی بو، ماتم کی صدا ہے، قائد ملت جعفریہ پاکستان
راولپنڈی /اسلام آباد 31 اکتوبر2025 : قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں ”عوام کا مرکز سمارسٹیز ” کی کے ماٹو کیساتھ عالمی یوم منایا جارہاہے مگر غزہ کے عوام کا مرکز جو کبھی جدیدشہروں میں شمار ہوتاتھا آج کھنڈرات میں بدل چکا،بیروت جو ترقی کے زینے عبور کررہا تھا آج بیرونی جارحیت کا شکار، دمشق جو تاریخی لحاظ سے اہمیت کا حامل آج اسکا بھی کوئی پرسان حال نہیں مگر افسوس نیویارک تا لندن تا اسلام آباد ، قاہرہ تا استنبول ایک معاہدے کا جشن منایاگیا مگر آج بھی مظلوموں کی آہ وبکاعالمی ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہے۔پاکستان میں لاہور ، کراچی سمیت بین الاقوامی شہروں کوایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں، سموگ کے خطرات تودوسری جانب امن وامان ، عوام کے جان ومال کا تحفظ کے مسائل کا سامنا، عام آدمی آج شہروں میں اشیائے ضروریہ کی سکت تک سے محروم تو ایسی صورت میں کیسے سمارٹ سٹیز کے عنوان کوعملی جامہ پہنتا دیکھیں گے؟
ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہروں کے بین الاقوامی دن پر اپنے پیغام میں جو ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظوری کے بعد سے منایاجارہاہے اور اس سال اس کا تھیم "عوام کے مرکز میں سمارٹ سٹیز” ہے، جس میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ ٹیکنالوجی کس طرح شہری زندگی کو اس انداز میں بڑھا سکتی ہے جو انسانی بہبود اور شمولیت کو ترجیح دیتی ہے ، عنوان، تھیم اور پیغام بہت مثبت ، بہت اچھے مگر افسوس عملاً انسانیت جہاں شرماجائے وہ بین الاقوامی شہر غزہ ہے ،ہنستے بستے شہر،اس کے انفراسٹرکچر، اسپتال، سکولز، مساجد، میڈیا ہائوسز حتیٰ کے اقوام متحدہ کے دفاتر اور امدادی کیمپس کو بھی نشانہ بنایاگیا مگر افسوس اس تباہی کے بعد ایک پیچیدہ معاہدہ سامنے آیا جس پر جشن منایاگیا اور آج پھر غزہ میں بارود کی بو اور صدائے ماتم و احتجاج ہے، کیوں عالمی ضمیر غزہ کے بعد بیروت، دمشق کیلئے نہیں جاگتاجہاں جنگ کے علاوہ انارکی، افراتفری پھیلانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ اسلام آباد، کراچی، لاہور دنیا کے بین الاقوامی شہروں میں شمار ہوتے ہیں مگر دارالحکومت کے قدرتی حسن کو نہ صرف تباہ کردیاگیا بلکہ یہاں کے باسی بھی عدم تحفظ، نان شبینہ سے محروم تو ملک کے باقی خطوں کی کیا بات کی جائے کہ ایک ادنیٰ سی سبزی راتوں رات چار سوگنا مہنگی ہوجاتی ہے ، بڑے تجارتی مراکز میں بھی خواتین ہراسگی کے واقعات منظرعام پر آتے ہیں مگرعملاً کوئی اقدام نظر نہیں آتا، کراچی جسے غریب کی ماں کا درجہ تھا آج وہاں بدامنی اور عوام میں عدم تحفظ پھر اٹھ رہاہے، لاہور جیسا تاریخی شہر آج تاریخی ماحولیاتی آلودگی کے نرغے میں ہے مگر جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں وہ نظر نہیں آتے، شہروں کا دن ضرور منایا جائیگا مگر شہروں اور شہریوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔


